نئی دہلی،3؍ دسمبر(ایس او نیوز؍ایجنسی) زرعی قوانین کو منسوخ کرانے کے مطالبہ پر ملک بھر کے کسانوں نے اس وقت قومی راجدھانی دہلی میں ڈیرہ ڈالا ہوا ہے اور کسان تحریک کے سبب دہلی کی سڑکوں اور عوامی مقامات پر کسان ہی کسان نظر آتے ہیں۔ منگل کے روز حکومت اور کسان لیڈران کے درمیان ہونے والے مذاکرات کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکے اور دونوں فریقین آج پھر بات چیت کریں گے۔
حکومت اور کسانوں کی بات چیت سے قبل وزیر اعلیٰ پنجاب کیپٹن امریندر سنگھ اور مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کی ملاقات ہونے جا رہی ہے۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق یہ ملاقات صبح 9.30 بجے کے قریب ہوگی۔ ادھر، حکومت اور کسانوں کے درمیان آج اب تک کی چوتھی میٹنگ ہوگی۔
کسان تنظیموں نے زرعی اصلاحی قوانین کو واپس لینے کے مطالبے میں قومی دارالحکومت میں دباؤ بڑھا دیا ہے اور کہا ہے کہ مطالبات تسلیم کیے جانے کے بعد ہی وہ واپس جائیں گے۔ کسانوں نے نوئیڈا سے غازی آباد کو آنے والے اور قومی دارالحکومت کو آنے والے کئی راستوں کو رکاوٹ کھڑی کر دی ہے جس کی وجہ سے مختلف مقامات پر جام کا مسئلہ ہو گیا ہے۔ اس دوران وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ کسانوں کے مسائل کا حل ضرور نکلے گا۔
تومر نے کہا کہ کسان تحریک کا راستہ چھوڑ کر بات چیت کا راستہ اختیار کریں۔ دہلی کے راستے بند ہونے سے عوام کو مشکلات کا سامنا ہے۔ دہلی کے عوام برداشت اور خندہ پیشانی کا ثبوت دیں۔ کسان تنظیموں کی بدھ کے روز دن بھر میٹنگ ہوتی رہی اور تین دسمبر (جمعرات) کو حکومت کے ساتھ ہونے والی میٹنگ کا لائحہ عمل تیار کیا گیا۔ کسانوں نے کہا ہے کہ اگر ان کے تمام مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے تو دہلی آنے کے تمام راستے بند کر دیے جائیں گے۔ کسان تنظیموں نے پانچ دسمبر کو قومی سطح پر دھرنے کی اپیل کی ہے۔
کسان رہنما راکیش ٹکیت نے کہا ہے کہ مطالبات تسلیم کیے جانے کے بعد ہی کسان دہلی سے واپس جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو قومی زرعی پالیسی بنانی چاہیے اور کسانوں کے مسائل حل کرنے چاہیئیں۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ حکومت نے بار بار کسانوں کو دھوکہ دیا۔
اس درمیان کچھ آرٹسٹوں نے کسانوں کے مطالبات کی حمایت کی ہے۔ پنجاب اور ہریانہ سے خاتون کسانوں کا آنا بھی شروع ہو گیا ہے۔ کسان تنظیموں نے حکومت سے پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلا کر زرعی اصلاحی قوانین کو رد کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے اور فصلوں کے کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) کو قانونی درجہ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
بشکریہ : قومی اواز